Alfia alima

Add To collaction

جسم کی دیوار

جسم کی دیوار
اس کے پاؤں برف ہو رہے تھے، پنڈلیاں دکھ رہی تھیں، زبان کسیلی ہوگئی تھی، حلق میں خراشیں پڑ گئی تھیں اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی پیشانی، دائیں کنپٹی سے ناک تک کھوکھلی ہوگئی ہے۔ 

وسط دسمبر کی اس سرد رات کو اس نے کناٹ پلیس سے ماڈل ٹاؤن تک، تقریباً سات میل کا فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔ اسے کوئی تین گھنٹے لگے تھے اور ان تین گھنٹوں میں سگریٹ اس کے لبوں سے پل بھر بھی جدا نہ ہوا تھا۔ 

تھکن کی وجہ سے اسے جیکٹ، پتلون اور قمیص اتارنے میں خاصی تکلیف ہوئی لیکن جب اس نے شب خوابی کا ڈھیلا لباس پہن لیا تو اسے قدرے سکون ملا کہ اس کا جکڑا ہوا جسم آزاد ہوگیا تھا۔ 

بتی گل کر کے وہ صاف، بے داغ بستر پر کندھوں تک لحاف کھینچ کر درواز ہوگیا۔ 

بستر سرد تھا، کمرہ سرد تھا اور کمرے میں پھیلی ہوئی تاریکی سرد تھی، مگر اس کی رگوں میں تھکن کے مارے آگ دوڑ رہی تھی۔ اسے سرد بستر، سرد کمرہ اور سرد تاریکی بھلی لگی کہ اسے تھوڑا سا جسمانی آرام ملا۔ 

ابھی اس نے چند ہی کروٹیں لی تھیں کہ بستر اس کی تھکن کی انگیٹھی سے سلگنے لگا اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ 

اب اسے محسوس ہوا کہ اس کی آنکھیں بھی جل رہی ہیں، جیسے کسی نے ان میں مرچیں جھونک دی ہوں۔ 

اسے سانس لینے میں دقت محسوس ہورہی تھی۔ جیسے کمرے میں دھواں بھر گیا ہو اور بستر میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔ اس نے لحاف اتار پھینکا، لپک کر بتی جلائی، دونوں کھڑکیاں کھول دیں، دونوں دروازے کھول دیے اور رسی کھینچ کر روشندان بھی کھول دیا۔ 

سردی کی لہر اس کے جسم تک پہنچی، ننگے فرش سے اس کے جلتے ہوئے تلوؤں میں ٹھنڈک پہنچی اور اس کے سانس سنبھلے۔ اس نے اطمینان سے طویل سانس کھینچا اور کرسی میں دھنس گیا۔ 

رات کے تین بج رہے تھے۔ 

اس کی نظریں ننگی بچی دیوار پر جم گئیں۔ ایک جگہ سفیدی زردی میں تبدیل ہوگئی تھی اورا یک جگہ پلستر اکھڑ چکا تھا اور گرنے ہی کو تھا۔ 

وہ اکھڑے ہوئے پلستر کو گھورتا رہا جو نجانے کس طرح سنبھلا ہوا تھا۔ 

کمرہ یخ ہوگیا تھا اور اسے اچھا لگ رہا تھا کہ اس کا تپتا ہوا جسم پرسکون تھا، صرف اس کی آنکھیں جو اکھڑے ہوئے مگر سنبھلے ہوئے پلستر کے ایک ٹکڑے کو تک رہی تھیں۔ جل رہی تھیں۔ 

کافی دیر تک وہ اکھڑے ہوئے پلستر کو گھورتا رہا جیسے اس کی نظروں کی تاب نہ لاکر پلستر کا وہ سنبھلا ہوا ٹکڑا گر جائے گا۔ ٹکڑا جوں کا توں سنبھلا رہا، نہ گرا۔ اس کی آنکھوں کی جلن شدید ہوگئی اور اس کی کنپٹیاں سلگنے لگیں اور اس کے سانس رکنے لگے۔ 

اس نے کرسی کے بازوؤں کا سہارا لیا اور کھڑا ہوگیا۔ پلکیں گرا کر انگلیوں سے آنکھیں مسلیں اور دھیمے دھیمے غسل خانے کی طرف قدم بڑھائے۔ 

ہر قدم ا ٹھاتے ہوئے اسے یہی محسوس ہو رہا تھا کہ وہ غسل خانے تک پہنچ نہ پائے گا، راستے ہی میں گر جائے گا۔ 

غسل خانے میں پانی سے بھری بالٹی رکھی تھی۔ اس نے جھک کر، آنکھیں کھول کر، پھیلا کر، بے تحاشا پانی کے چھینٹے مارنے شروع کردیے جیسے آگ لگ گئی ہو اور آگ کے پھیل جانے کا اندیشہ ہو۔ 

پانی کے چھینٹے اڑنے سے اس کا شب خوابی کا ڈھیلا لباس کسی قدر بھیگ گیا اور چھینٹے اس کی چھاتی اور پیٹ تک جا پہنچے اور وہ ذرا کانپا اور اس کے چھینٹے اڑاتے ہوئے ہاتھ رک گئے۔ 

اس کی آنکھوں کی جلن دب گئی، کنپٹیاں بھی ٹھنڈی ہوگئیں اور اس کے سانس بھی درست ہوگئے۔ 

اس کے جسم میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوگئی اور اسے کمر میں ہلکا سا درد محسوس ہوا۔ 

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ کمرے تک پہنچا اور بتی گل کرکے بستر پر دراز ہوگیا۔ 

بسر سرد تھا، کمرہ سرد تھا اور تاریکی سرد تھی۔ 

رات کے چار بج رہے تھے۔ 

نیند کی لہریں اس کی آنکھوں کے ساحل پر سر پٹک رہی تھیں۔ 

اس کے ذہن میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔ 

’’نگم، تم طوفان کی سی تیزی سے زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے ہو۔۔۔! تم بے تحاشہ شراب پیتے ہو، بے تحاشہ سگریٹ پیتے ہو۔۔۔ بے تحاشہ کافی پیتے ہو، بے تحاشہ گھومتے ہو۔۔۔ بے تحاشہ پڑھتے ہو اور ہر حادثے کو، واقعے کو، چاہے اس کا تعلق تمہاری ذات سے ہو یا نہ ہو، بے تحاشہ قبول کرلیتے ہو۔۔۔! تم دھیمے دھیمے زندگی کیوں نہیں گزارتے نگم۔۔۔! شراب چھوڑ دو، تمہیں یہ راس نہیں آتی، سگریٹ کم پیا کرو، یہ سب تمہاری رگوں کو کھینچے رکھتی ہیں اور تمہاری طبیعت میں شدت پسندی بھر رہی ہیں۔۔۔ اس شدید زندگی سے دور جاکر آرام کرو، خوب سوؤ، ٹانگیں پسار کرسوؤ میری جان!‘‘ 

’’میرے پیارے ماتھر، سوؤں گا اور خوب سوؤں گا، اور اس قدر سوؤں گا کہ تمہارا دم گھٹ جائے گا، تم بینڈ باجے بجا کر بھی جگانا چاہوگے، تو نہیں جاگوں گا۔۔۔!‘‘ 

’’نگم، اس ڈھنگ سے مت سوچو۔ سوچنے کا یہ ڈھنگ بھی شدید ہے!‘‘ 

’’ماتھر! تم میرے دوست ہو اور تم ڈاکٹر بھی ہو۔ تمہارے اندر کا ڈاکٹر میرے جسم کو بچانا چاہتا ہے۔ میں تمہارے اندر کے ڈاکٹر کے دکھ کو جانتا ہوں۔۔۔ تمہارے اندر کے ڈاکٹر پر میرا دوست غالب آ جائے تو اس سے کہوں۔۔۔ میرا دادا بتیس سال کی عمر میں سو گیا تھا، جانتے ہو کہاں۔۔۔؟ جلیاں والا باغ میں۔ اس سمے میرا باپ چار سال کا تھا۔۔۔! میرا باپ اٹھائیس سال کی عمر میں سو گیا تھا۔ جانتے ہو کب؟ ۱۹۴۲ میں! اس سمے میں تین سال کا تھا۔۔۔! اب میں چوبیس سال کا ہوں۔۔۔ میری جوانی وہی لوگ لوٹ رہے ہیں جو آج میرے دادا اور میرے باپ کی جواں مرگی کے صدقے ارباب اقتدار ہیں، جو آج عیش کر رہے ہیں، عیش کر رہے ہیں، عیش۔۔۔! میری رگوں میں خون نہیں دوڑتا، مضطرب لہریں دوڑتی ہیں۔۔۔ میرے ذہن میں نفرت کے آتش فشاں پہاڑ ابھر آئے ہیں اور میرے دل میں غم کا سمندر موجیں مار رہا ہے۔۔۔ اب میں کہیں کا نہیں رہا۔۔۔ کہیں کا نہیں رہا۔۔۔ مجھے نیند نہیں آتی۔۔۔!‘‘ 

آخر کار نیند نے اسے دبوچ لیا۔ 

پوپھٹنے ہی کو تھی۔ 

صبح جب اس کی آنکھ کھلی، اس کا سر گھوم رہا تھا، آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا تھا اور جسم تپ رہا تھا۔ 

چار پائی سے اٹھتے ہوئے اس نے بھرپور انگڑائی لی، اس کی ہڈیاں چٹخ گئیں اور اس کے لبوں پر تبسم کی معدوم سی لکیر آپ سے آپ کھنچ گئی۔ 

اس نے آئینہ دیکھا۔ 

اسے اپنا چہرہ بھلا لگا۔۔۔ خشک، بکھرے ہوئے، گھنے، سیاہ بال جن میں چند ایک چاندی کی تاریں کنپٹیوں کے قریب چمک رہی تھیں۔ چوڑا ماتھا، گھنی بھویں اور نیند کو ترستی ہوئی بے نام سی چمک لیے زرد آنکھیں جن پر بوجھل پلکیں بار بار گر رہی تھیں۔ سیدھی سی ناک اور سوکھے سوکھے ہونٹ اور گندمی رنگ۔ 

اسے اپنا چہرہ بھلا لگ رہا تھا جیسے وہ آئینے میں صدیوں پرانی، شکستہ، اجڑی ہوئی عمارت دیکھ رہا ہو اور ماضی کی عظمت کے باقی نشان اسے بھلے لگ رہے ہوں۔ 

اس کی ٹانگیں لرزنے لگیں۔ آئینے میں اس کی صدیوں پرانی، شکستہ، اجڑی ہوئی عمارت جو اسے بھلی لگ رہی تھی، کانپنے لگی۔ اس نے آئینہ رکھ دیا اور دھیمے دھیمے غسل خانے کی جانب بڑھا۔ 

دس بج رہے تھے۔ 

گیارہ بجے کے قریب جب وہ ریلنگ کا سہارا لیے، ہونٹوں میں سگریٹ دبائے، دھیمے دھیمے، کانپتے ہوئے قدموں سے سیڑھیاں اتر رہا تھا تو اسے یہی احساس تھا کہ وہ اگلے پل آخری سیڑھی پر منہ کے بل پڑا ہوگا۔ 

نیچے لان میں بچے کھیل رہے تھے۔ اس نے دو ایک کے گال تھپتھپائے اور مین گیٹ سے باہر آگیا۔ 

اس کا سر گھوم رہا تھا۔ 

اس نے سگریٹ کا طویل کش کھینچا ہی تھا کہ کھانسی کا زلزلہ آن پہنچا اور اس کا پورا وجود ہل گیا۔ اس نے تھوکا تو بلغم کا یہ بڑا دھبہ سڑک پر دکھائی دیا۔ اسے متلی آگئی کلیجہ حلق تک آگیا، مگر قے نہ ہوئی کہ پیٹ خالی تھا۔ 

کھانسی کے زلزلے کے بعد اس کی آنکھیں نم آلود ہوگئیں اور پیٹ کی بھٹی جل اٹھی۔ اس نے رومال سے آنکھیں اچھی طرح مانجھیں جیسے قلعی گر برتن مانجھتے ہیں اور پیٹ کی بھٹی کو جلنے دیا کہ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ 

مین گیٹ کے باہر وہ کافی دیر اسکوٹر کا انتظار کرتا رہا، اس احساس کے ساتھ کہ ابھی اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی۔ 

بارہ بج رہے تھے۔ 

خالی اسکوٹر دیکھ کر اس نے بڑی مشکل سے ہاتھ اٹھایا اور اسکوٹر روکنے کا اشارہ کیا۔ 

ڈرائیورنے بریک لگائی اور اسکوٹر دس قدم کے فاصلے پر بے ہنگم سے شور کے ساتھ رکا۔ 

اس نے دھیمے دھیمے، بڑی مشکل سے قدم اٹھائے۔ 

اسکوٹر تک پہنچتے پہنچتے ا سے ایک جگ بیت جانے کا احساس ہوا۔ 

اس نے لب کھولے ہی تھے کہ ڈرائیور نے پوچھا، ’’ہندو راؤ ہوسپٹل یا ارون ہوسپٹل۔۔۔؟‘‘ 

اس کا دل ڈوب گیا، اس کے لب کانپے۔ 

’’نہیں۔۔۔! کناٹ پلیس۔۔۔ ریگل بلڈنگ۔۔۔ ٹی ہاؤس۔۔۔!‘‘ اس نے بڑے ضبط سے لبوں کو دانتوں میں دبا لیا۔ 

ڈرائیور کو تعجب ہوا۔ چند لمحے وہ اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا رہا اور پھر اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے بریک کھول دی۔ 

’’کون جانے یہ شخص ٹی ہاؤس پہنچ بھی پاتا ہے یا نہیں۔۔۔‘‘ 

   1
0 Comments